Monday, 6 March 2017

سورج اور چاند

سورج اور چاند
میرے بچو! میں تمھیں بتاؤں! سورج شام تک تھک جاتا ہے۔ پھر وہ سونے کے لیے چلا جاتا ہے۔ اب چاند اور ستاروں کی باری ہے۔ ان کا کام اندھیرے کو بھگانا ہے۔ وہ سورج کی نیند پوری ہونے تک چمکتے ہیں۔ لو اب سورج اٹھ گیا ہے۔ دھوپ نکلنے لگی ہے اور صبح ہو گئی ہے۔ اوہ! ستارے کہاں گئے؟ پیارے بچو! سورج کی روشنی پھیل ہے۔ اس لیے ستارے نظر نہیں آرہے۔ سورج، چاند اور ستارے اللہ کی بات مانتے ہیں۔ 
اب آپ مجھے بتاؤ!
1۔ شام ہوتے ہی کون سونے چلا جاتا ہے؟
2۔ رات کو کون چمکتا ہے؟
3۔ کس کے آنے سے دھوپ نکلتی ہے؟
4۔ ستارے کیوں نظر نہیں آرہے؟ 

5۔ سورج، چاند اور ستارے کس کی بات مانتے ہیں؟

گلابی بھالو


گلابی بھالو
میرے بچو! میں تمھیں بتاؤں! گلابی بھالو بہت اچھا ہے۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ ایک بار اس سے شہد گر گیا تھا۔ ماما کچن میں آئیں تو دیکھا۔ سارا فرش گندا ہو گیا تھا۔ گلابی بھالو نے بتایا کہ وہ شیلف پر چڑھا ہوا تھا۔ اسے بھوک لگی تھی۔ اس نے شہد کی بوتل اٹھائی تو وہ نیچے گر گئی۔ ماما نے گلابی بھالو کو پیار کیا۔ کیونکہ اس نے جھوٹ نہیں بولا۔ پھر گلابی بھالو کو انعام میں شہد والے توس ملے۔ 
اب آپ مجھے بتاؤ!
1۔ گلابی بھالو سے کیا گر گیا تھا؟
2۔ کچن میں کون آیا؟
3۔ کیا گلابی بھالو نے جھوٹ بولا؟ 
4۔  گلابی بھالو کو انعام کیوں ملا؟

5۔ کیا آپ بھی ہمیشہ سچ بولتے ہیں؟ 

میں ایک باورچی ہوں

میں ایک باورچی ہوں
(تحریر:  ماخوذ)
میرے قریبی دوست اور رشتہ دار جانتے ہیں کہ میں ایک اچھا باورچی ہوں لیکن میں نے کبھی اس بات پر غرور نہیں کیا۔ میں خود کو شیف بھی کہہ سکتا تھا کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ماڈرن لفظ زیادہ معزز لگتا ہے لیکن سچ بات ہے شیف کے لفظ میں مجھے ایک خاص قسم کی چالاکی اور پیشہ ورانہ تفاخر محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے میں دیسی لفظ باورچی کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔ ہمارے اسی معاشرے میں جب دولت کی ریل پیل نہیں ہوئی تھی اور دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہوئی تھی تو خاندانی باورچی شادی بیاہ کے موقع پر بلائے جاتے تھے۔ یہ لاکھوں روپے کی کیٹرنگ نہیں ہوتی تھی نہ ہی یہ اسٹیٹس سمبل بنا تھا کہ شادیوں پر چار چار دن انواع و اقسام کے کھانوں کے سلسلے چلتے رہیں۔
خاندانی باورچی ہر شادی کے موقع پر مرکزی کردار ہوتا تھا. بڑے وقار سے بلایا جاتا تھا اور اسے کرسی دی جاتی تھی۔ پھر وہ صاحب تقریب سے مذاکرات کرتا تھا اور ہر قسم کے بجٹ کے مطابق دیانتداری سے صحیح مشورہ دیتا تھا۔ مجھے یاد ہے میرے ایک دوست کی بہن کی شادی میں دولہا والے بغیر بتائے زیادہ تعداد میں باراتی لے کر آ گئے۔ میرا دوست بہت پریشان ہوا اور اس نے خاندانی باورچی کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ خاندانی باورچی نے کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس موقع پر میرے پاس صدری نسخہ موجود ہے جو سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ میں پلاؤ اور قورمے کی دیگوں میں ہلکا ہلکا روح کیوڑا ڈال دوں گا جس سے ذائقے میں فرق نہیں پڑے گا لیکن لوگ زیادہ کھا نہیں سکیں گے ۔چنانچہ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور کھانا پورا ہو گیا۔
یہ خاندانی باورچی اپنے کلائنٹ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ اپنے کلائنٹ کو پہلے تو ایک کاغذ پر کھانے میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات اور گوشت وغیرہ کی مقدار لکھواتے تھے اور پھر تقریب کے موقع پر جب دیگیں چڑھتی تھیں، خوشبوئیں اڑتی تھیں اور ٹھن ٹھن کی آوازیں شادی کے گھر پہنچتی تھیں تو کئی محلوں تک خبر جاتی تھی کہ کس کے گھر شادی ہے۔ آج تو یہ سب رسمیں ختم ہو چکی ہیں کہیں کسی نامعلوم جگہ سے دیگچوں میں کھانا پک اَپ میں لایا جاتا ہے اور انڈیل دیا جاتا ہے۔ ایک بات میں بھول گیا کہ دیگیں تیار ہونے کے بعد گھر کا سخت گیر تجربہ کار بزرگ کرسی ڈال کے دیگوں کے پاس بیٹھ کر کھانا کھلنے کا انتظار کرتا تھا اور جب آواز آتی کہ کھانا لگا دیں تو وہ اپنی نگرانی میں دیگوں سے کھانا نکلواتا تھا اور سب کچھ اس کی ہدایت کے مطابق ہوتا تھا کہ کب ہاتھ روک دیں کب کون سا آئٹم زیادہ کر دیں اور کس کو کم کردیں۔ یہ تجربہ اس بزرگ نے صدیوں کے ریاض سے پایا ہوتا تھا۔ جب وہ خوش اسلوبی سے کھانا”ورتا” لیتا تھا تو براتیوں سے حسب ذوق داد وصول کرتا تھا اور اگلی شادی کے موقع تک گوشہ گمنامی میں چلا جاتا تھا جیسے وہ خاندانی باورچی غائب ہوئے ہیں، ویسے ہمارے معاشرے سے یہ بزرگ بھی رخصت ہو گئے ہیں۔
سو میں کہہ رہا تھا کہ میں ایک باورچی ہوں اور تاریخ میں باورچیوں کا رتبہ بہت بلند رہا ہے۔ بادشاہوں کے شاہی مطبخ میں دنیا سے چن چن کے باورچی لائے جاتے تھے۔ یہ اصل نسل کے باورچی ایسا کھانا بناتے تھے کہ بادشاہ دسترخوانوں پر جنگیں جیت لیا کرتے تھے۔ یہ شاہی باورچی نہ چھٹی لے سکتے تھے نہ کہیں جا سکتے تھے کیونکہ اس صورت میں انہیں بادشاہ کے غیض و غضب کا نشانہ بنتے ہوئے ہاتھ کٹوانے پڑتے تھے۔ ان شاہی باورچیوں نے جو کھانے اختراع کئے اور انہیں جو نام دیئے آج ہمارے کوکنگ چینلوں پر خوبصورت یونیفارم میں شیف حضرات انہی پکوانوں کو تیار کرنے کا سوانگ رچاتے ہیں اور ہمیں بے وقوف بناتے ہیں لیکن سچی بات ہے کہ اگر کسی چینل نے میری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا لیا تو میں ایسی کوئی ڈش نہیں بناؤں گا جس سے غریبوں کے گھروں میں ٹھنڈے پڑے ہوئے چولہوں اور ان کی محدود آمدنی کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ترساؤں۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ مجھے کوئی چینل موقع نہیں دے گا۔
میں نے باورچی بننے کا فیصلہ کیوں کیا ہے اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس وقت سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار ہی یہی ہے دوسرا یہ کہ ہمارے معاشرے میں ایک نئے رول ماڈل نے کامیابی سے جگہ پائی ہے، وہ باورچی یا شیف ہے۔ اگرچہ امریکہ اور مغربی ممالک میں یہ رول ماڈل بہت پہلے سے موجود ہے لیکن ہمارے ہاں اسے اب موقع ملا ہے۔
تو صاحبوں! اب میرے باورچی بننے کی خواہش آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میں اینکر پرسن بننا چاہتا تھا کہ شام آٹھ بجے اپنا دفتر لگا کے بیٹھ جاؤں اور حکومت وقت کو ناکوں چنے چبوا دوں لیکن کسی بھی چینل نے میری سیاسی بصیرت پر بھروسہ نہیں کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اینکر پرسن اب کسی کامیڈین کو ساتھ بٹھا کر شو کرتے ہیں۔ میں کہاں سے یہ ٹیلنٹ لاتا اس لئے میں نے اپنے ارمانوں پر اوس ڈال دی اور دیسی باورچی بننے کی فرمائش کر دی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فوڈ چینل جو ڈشیں اور تراکیب سکھاتے ہیں وہ مجھے نہیں آتیں۔ مجھے تو میری ماں اور بیوی نے جو سالن بنانے سکھائے ہیں میں تو وہی سکھا سکتا ہوں اور یہ وہ ڈشیں ہیں جو کسی بھی معمولی آمدنی یا محدود آمدنی والے گھر میں تیار کی جاسکتی ہیں۔ ان ڈشوں کو آسان نہ سمجھیں یہ سب سے مشکل ہوتی ہیں جو سکھائی جاتی ہیں وہ آسان ہوتی ہیں۔
میری سب سے مہنگی ڈش کریلے گوشت ہے جو مجھے میری ماں، میری بیوی اور استاد دامن نے سکھائی تھی۔ تینوں کی ترکیب ایک جیسی تھی مثلاً یہ کہ کریلے گوشت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بکرے کے گوشت کا کون سا حصہ آپ استعمال کر رہے ہیں۔ خیر اس کے بعد میری ڈشیں آسان ہیں۔ بگھارے بینگن، کڑھی، ماش کی دال، دال چاول، بھنڈی، توری، چکڑ چھولے، انڈہ چنے، خاگینہ، بینگن کا بھرتہ، آلو انڈا، آلو کی ٹکیاں وغیرہ وغیرہ۔ میری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ میری اس صلاحیت کو کوئی فوڈ چینل افورڈ نہیں کر سکتا۔
اب میں آپ کو اصل بات بتاؤں کہ میں دنیا کے دو بڑے شیفوں کو اپنا رول ماڈل سمجھتا ہوں۔ ایک سنجیو کپور ہیں جو زندہ ہیں۔ وہ اتنی میٹھی آواز میں لفظ ’بڑھیا‘ استعمال کرتے ہیں کہ انتظار حسین کو مات کر جاتے ہیں وہ ہر کھانا بناتے ہوئے کہتے ہیں "یہ مرچ بہت بڑھیا ہے اسے ناریل میں ملا دیں بڑھیا قسم کی ساؤتھ انڈین ڈش بن جائے گی”۔ میرے دوسرے بڑے رول ماڈل انگلینڈ کے آنجہانی کیتھ فلائیڈ ہیں جن کا گزشتہ برس انتقال ہوگیا ہے۔ Keath Floyed میرے حساب سے اس فوڈ چینل انڈسٹری کے باوا آدم تھے۔ وہ دنیا کے ہر خطے میں اپنے جہاز سے اپنے عملے کے ساتھ سفر کرتے تھے اور دنیا کا ہر کھانا وہاں کی روایت کے مطابق بناتے تھے۔ انہوں نے افریقہ میں کئی خوبصورت جگہوں پر غریب افریقی بچوں کے ساتھ شتر مرغ کی ڈش بنائی۔ چین میں سانپ کی ڈش بنائی۔ عرب ملکوں میں دنبے کے ذبح ہونے کے بعد میزبان کے ساتھ اسے سیخ پر چڑھایا۔ میں اس پر رشک اس لئے کرتا ہوں کہ وہ ایسا باورچی تھا جو کھانا بنانے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی تفریح سمجھتا تھا۔ میں بھی کھانا بنانے کو اپنی تفریح سمجھتا ہوں۔ اگرچہ مجھے کوئی چینل قبول نہیں کرے گا کیونکہ میں ایسا فوڈ بناؤں گا جو غریب کا ہو گا اور ساحر لدھیانوی کی طرح میں بھی کہوں گا بڑے بڑے شیف حضرات سے:
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق


اعتماد

اعتماد
(تحریر: بدر الرحمٰن)
آئے رو ز کے شور شرابے سے میں تنگ آ گیا ہوں بیگم! شیخ راشد نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ تمہارے وعدوں نے مجھے مار دیا ہے۔ کب سے کہہ رہی ہو کہ کوئی نوکر رکھ کر مجھ سے اب گھر کا کام کاج نہیں ہوتا۔ بیگم نے تحکمانہ انداز میں جواب دیا۔ بس بس! سن لیا کون سا وعدہ؟ شیخ راشد بولے۔
وہ نوکر رکھنے کا وعدہ اور کیا؟ بیگم نے تنک کر کہا۔
اگلے روز شیخ راشد گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی اجنبی لڑکا تھا۔ ان کی بیگم نے اس لڑکے کی طرف حیران ہو کر دیکھا اور کہا کہ یہ آپ کسے لے آئے ہیں ؟ خود ہی تو بیس پچیس دن سے کہہ رہی تھیں کہ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازم ہونا چاہیے۔ سو لے آیا ہوں۔ اب گھر کا سارا سامان اس سے منگوا لیا کریں۔
شیخ راشد نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
لیکن یہ آپ کو ملا کہاں سے ؟ آج کل بھلا اس طرح کسی کو ملازم رکھا جا سکتا ہے؟ کل کلاں اگر یہ کوئی قیمتی چیز اڑا لے تو؟ بیگم نے برا سا منہ بنا تے ہوئے کہا۔
ایسا نہیں ہو گا بیگم! یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ شیخ راشد مسکرا دیے۔ کون سے بازو؟ بیگم صاحبہ نے چونک کر پوچھا۔ میرا مطلب ہے میرا جبہ ہے میں کھرے کھوٹے میں فرق کر سکتا ہوں شیخ راشد نے نہایت تسلی سے جواب دیا۔
تو آپ تمیز کر چکے ہیں۔ بیگم کے لہجے میں حیرت تھی ہاں بالکل یہ شریف لڑکا ہے بازار میں خربوزے بیچ رہا تھا۔
میں نے سوچا ہمیں ضرورت تو ہے ہی یہ بھی خربوزے بیچنے کی مصیبت سے بچ جائے گا۔ اس سے بات کی تو یہ مان گیا سواسے گھر لے آیا۔
لیکن یہ خربوزے کیوں بیچ رہا تھا؟ بیگم نے پوچھا۔
حد ہو گئی! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ حالات انسان سے کیا کچھ نہیں کراتے۔ شیخ اکرم نے کہا آخر تم کیا چاہتی ہو بیگم یہ اور کیا بیچتا۔ میں اطمینان چاہتی ہوں یا پھر میرا اطمینان کرا دیں۔ بیگم نے جواب دیا۔
آپ مجھے اطمینان کرا دیں گے کہ اگر یہ میرے زیورات لے اڑا تو ذمہ دار آ پ ہوں گے اور وہ چیز نئی خرید کر دیں گے۔
ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ یہ کہہ کر وہ اس کی جانب مڑے دیکھو زاہد تم یہ بات چیت سن ہی چکے ہو۔ اب یار مجھے بیگم کی نظروں میں شرمندہ نہ کرانا۔
جی اچھا… آپ فکر نہ کریں ۔ زاہد نے فورا ً کہا۔ فکر تو اب میں کروں گی بیگم صاحبہ نے منہ بنایا۔
میرا خیال ہے صاحب! میں ان حالات میں نہیں رہ سکتا۔ میرے لیے خربوزے ہی ٹھیک رہیں گے۔ زاہد نے قدرے پریشان ہو کر کہا غلط سمجھے شیخ راشد بولے۔ بیگم صاحبہ بس ظاہر میں سخت مزاج ہیں لیکن دل کی بہت اچھی ہیں۔ شیخ راشد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
نہیں شیخ صاحب! بیگم صاحبہ مجھ پر اعتبار نہیں کر رہی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا اچھا نہیں ہوتا۔ انسان میں عزت اور غیرت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ زاہد رکے بغیر بولے جا رہا تھا۔
تم تو برا مان گئے۔ شیخ راشد نے مسکراتے ہوئے مشفقانہ لہجے میں کہا میں نے آپ کو بتایا کہ بیگم صاحبہ دل کی بری نہیں ہیں۔ بس تھوڑی سی سخت گیر ضرور ہیں۔ شیخ راشد نے زاہد کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
یہاں میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی! شیخ راشد نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
آخر زاہد مان گیا اوراس نے گھر کا کام کاج سنبھال لیا۔ اب اسے شیخ راشد کے گھر رہتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ اس نے اس دوران اپنا اعتماد اچھی طرح جما لیا تھا۔ اب وہ لوگ اس پر اندھا اعتماد کرنے لگے تھے۔ کبھی کسی تقریب میں جانا ہوتا تو سارا گھر اس پر چھوڑ جاتے تھے۔
اور پھر ایسے میں ان کے گھر چوری کی واردات ہو گئی۔ ساتھ ہی زاہد بھی غائب تھا۔ اب تو شیخ راشد کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
بیگم صاحبہ طنزیہ انداز میں بولیں۔ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟ ک ک … کچھ نہیں۔ اب میں کیا کہوں گا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا۔ میرے لیے خربوزے ہ ٹھیک رہیں گے۔ لیکن اب کیا ہو گا۔
شیخ راشد بولے۔
ہو گاکیا…پولیس کو تو بلانا ہی ہو گا۔ تمام زیورات غائب ہیں اور قیمتی چیزیں بھی جا چکی ہیں۔
آخر پولیس کو فون کیا گیا ایک گھنٹے کے بعد پولیس پارٹی وہاں پہنچ گئی۔ پولیس آفیسر نے بہت سے سوالات کے۔ شیخ راشد نے زاہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ خربوزے کے ذکر پر وہ چونکا آپ کا مطلب ہے وہ پہلے خربوزے بیچا کرتا تھا۔ ہاں جناب! شیخ راشد نے جواب دیا۔
اچھی بات ہے آپ فکر نہ کریں ہمیں چوروں کو پکڑنا آتا ہے۔ پولیس پارٹی چلی گئی۔ تین دن بعد پولیس آفیسر زاہد کو لیے ہوئے ان کے گھر آ پہنچا وہ زاہد کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ بری طرح زخمی تھا۔ سارے جسم پر زخم ہی زخم تھے۔ گومڑ ہی گومڑ جسم پر کئی جگہ نظر آ رہے تھے۔ اوراس کے علاوہ بڑے بڑے نیل واضح تھے۔
یہ آپ نے اس کی کیا حالت بنا دی ہے اوراس قدر مار نے کی کیا ضرورت تھی۔ شیخ راشد نے پولیس انسپکٹر سے کہا۔
آپ کا خیال غلط ہے۔ یہ ہمیں اسی حالت میں شہر سے باہر سڑک کے کنارے پڑا ہوا ملا تھا۔ اس بے چارے نے چوری نہیں کی۔ بلکہ چوروں کا تعاقب کیا تھا۔ چور پیدل تھے۔ جب یہ ان کے پیچھے بھاگا تو وہ بھی بھاگنے لگے۔
آپ کی کوٹھی ہے بھی شہر کے کنارے پر۔ آس پاس کوئی پولیس چیک پوسٹ نہیں ہے۔ جہاں پولیس رات کے وقت نگرانی کرتی ہے لہٰذا یہ بھاگتے بھاگتے شہر سے باہر نکل گئے۔ بس وہاں رک کر چوروں نے زاہد کو خوب مارا اور چلتے بنے۔ ایک آدمی اسے بے ہوشی کے عالم میں اٹھا کر ہسپتال لے گیا۔ تین دن تک یہ بے ہوش رہا۔ ہوش آنے پر زاہد نے آپ کے بارے میں بتایا۔ پولیس کے ایک سپاہی نے مجھے اطلاع دی۔ اس طرح میں نے آپ کے پاس لے آیا ہوں پولیس آفیسر نے وضاحت ک۔
اور چور… وہ کہاں گئے؟ شیخ راشد نے پوچھا۔ زاہد نے چوروں کے حلیے بتا دیے تھے۔ ہم ان حلیوں کے جرائم پیشہ لوگوں کو پہلے ہی سے جانتے تھے۔ بس پکڑے گئے سب کے سب اور میں آپ کا مال بھی لے آیا ہوں پولیس آفیسر نے کہا۔
ارے ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ پھر ان کے سر شرم کے مارے جھک گئے شیخ راشد نے کہا زاہد ہمیں معاف کر دو ہم نے تم پر شک کیا۔ زاہد نے کہا شیخ صاحب! منہ سے نکلی ہوئی بات کمان سے نکلا ہو ا تیر اور گزار وقت کبھی واپس نہیں آ سکتے۔ آپ نے مجھے غلط سمجھا۔ بیگم صاحبہ کی نظروں میں تو میں پہلے ہی مشکوک تھا۔ اب میرے اور آپ کے راستے جدا جدا ہیں۔ آپ کو تو اپنی دولت واپس مل گئی ہے لیکن میرے اعتماد کی دولت تو لٹ چکی ہے۔ اب میں آپ کے پاس کیس رہ سکتا ہوں ؟
شیخ راشد اور ان کی بیگم صاحبہ نے زاہد کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا اور واپس جا کر خربوزے بیچنے لگا۔


بخشو کے اونٹ

بخشو کے اونٹ
(تحریر: رائمہ جاوید)
پیارے بچو!سندھ کے ریگستانی علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔یہ کہانی اس گاؤں کے ایک لڑکے کی ہے جس کانام خدا بخش تھا۔ سب گاؤں والے خدابخش کو بخشو کے نام سےپکارتے تھے۔
یہ گاؤں صحرائے تھر کے ساتھ لگتا تھا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کے لئے پینے کا پانی حاصل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ گاؤں کے لوگ اپنی زندگیوں کا قیمتی وقت پانی کی تلاش میں گزار دیتے تھے۔ کبھی سال میں ایک آدھ بار بارش ہو جاتی تھی اور پانی گڑھوں یا تالابوں کی شکل میں جمع ہو جاتا تو گاؤں والے وہاں سے پانی حاصل کرتے۔ گاؤں میں کئی جگہوں پر سینکڑوں فٹ گہرے کنویں تھے۔ گاؤں والوں کو کئی کئی میل کا سفر طے کر کے پانی لینے جانا پڑتا۔ ان ساری مشکلات میں وہ اونٹوں کی مدد لیتے تھے کینونکہ صحرا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا اونٹوں کے بغیر ممکن نہیں اس لئے گاؤں کے اکثر لوگوں کے پاس اونٹ تھے۔
بخشو جس کے بارے میں آپ نے اوپر پڑھا اُس کے باپ نے بھی دو اونٹ پال رکھے تھے۔ یہ اونٹ ان کے مختصر سے کنبے کا حصہ بن چکے تھے۔ بخشو کے باپ کو ان اونٹوں سے بہت پیارتھا۔ وہ انکو اپنے ہاتھوں سے دانہ ڈالتا اور تو اور بخشو کی ماں بھی ان کا بہت خیال رکھتی تھی۔
مگر میرے پیارے دوستو! بخشو کی عادت اپنے والدین سے بالکل مختلف تھی۔ اس کا دماغ ہر وقت شرارتوں میں لگا رہتا۔ وہ اکثر ان اونٹوں کے چارے میں مٹی ملا دیتا، کبھی ان کے پینے کے پانی میں صابن گھول دیتا، بخشو کا باپ اونٹوں کو چرانے کے لئے جنگل میں چھوڑتا اور بخشو کو انکی نگرانی پر لگا دیتا۔ یہ موقع بخشو کے لئے سنہری موقع ہوتا تھا۔ وہ اس موقع سے خوب فائدہ اُٹھاتا۔ بخشو چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کر کے کسی درخت پر چڑھ جاتا اور نشانہ لے لے کرمارتا، بیچارے اونٹ درد سے بلبلاتے اور ان کی درد بخشو کو بہت مزہ دیتی تھی۔ بعض اوقات تو خارش کی وجہ سے اونٹوں کے جسم پر کہیں کہیں زخم بھی ہو جاتے تھے، بخشو غلیل سے انہی زخموں پر نشانہ لگاتا، اونٹ اُچھل کر اِدھراُدھر بھاگتے تو بخشو کو بڑا مزہ آتا۔
بخشو کے چچا نے جب اُسے ایسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا تو اُس کو اس سب سے منع کیا اور اُسے ہدایت کی کہ یہ بے زبان جانوربد دُعائیں دیتے ہیں، ان کی بد دُعا لگ جاتی ہے پر بخشو نے اس نصیحت پہ کوئی کان نا دھرا اور اپنی ہرکتوں سے باز نہ آیا۔ ایک دن گاؤں کے ایک بزرگ نے بخشو کی یہ حرکت دیکھی تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا بابا کینہ شتر اونٹ کی دشمنی سے ڈر، جب یہ بے زبان جانور اپنا غصّہ نکالنے پر آتا ہے تو جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔
پیارے بچو ! بخشو کے گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا، اس کا سارا دن انہی شرارتوں میں گزر جاتا تھا، اس کے ہم عمر بھی اسی کی طرح جنگل میں اونٹ چراتے تھے اور شرارتیں کرتے تھے، ایک دن مغرب کے وقت یہ لڑکے اونٹ چرا کر گاؤں کو لَوٹ کر آ رہے تھے کہ ان کے کانوں میں یہ بات پڑی کہ گاؤں کی مسجد میں نئے امام صاحب آئے ہیں، بچے صرف انکو دیکھنے کے شوق میں نماز پڑھنے چلے گئے، دیکھا تو ایک سفید عمامہ والے باوقار مولانا صاحب مصلح پر تھے۔
مولانا صاحب نے بڑے اچھی آواز میں قرات کی، نمازیوں کو بڑا مزہ آیا۔ نماز کے بعد مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ کل سے یہاں بچوں کے لئے صبح قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز ہو گا، نمازی حضرات اپنے اپنے بچوں کو داخل کرائیں تا کہ ان کے بچے قرآن مجید کی تعلیم سے محروم نہ رہیں، عشاء کی نماز کے بعد قرآن مجید کا درس ہوا کرے گا۔
اگلے دن بخشو اور اس کے کئی دوستوں کو امام صاحب کے پاس پڑھنے کے لئے بٹھا دیا گیا، انکو تو الف با بھی نہیں آتی تھی، امام صاحب نے انہیں نورانی قاعدا شروع کروا دیا، رات کو مولوی صاحب درسِِ قرآن میں اچھی اچھی باتیں بتاتے جس سے لوگوں کی اصلاح ہونے لگی، ایک دن مولوی صاحب نے بخشو اور اس کے دوستوں کو جنگل میں اونٹوں کے ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا، اس وقت تو کچھ نہ بولے مگر رات کو درسِ قرآن میں انہوں نے موقع کی مناسبت سے یہ واقع سنایا:
’’ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلّم نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ايک انصاری صحابی نے آکر عرض کيا يہ ميرا اونٹ ہے۔آپ صلی اللہ عليہ وسلّم نے فرمايا جس اللہ نے تمہيں اس کا مالک بنايا ہے، تم اس اونٹ کے بارے ميں اللہ سے نہيں ڈرتے،  يہ اونٹ تمہاری شکايات کر رہا ہے، تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اس سے اسکی طاقت سے زيادہ کام ليتے ہو۔اس کے بعد وہ انصاری صحابی اونٹ کا زيادہ خيال رکھنے لگے اس کو چارہ بھی زيادہ ديتے اور اس کو آرام کا موقع بھی ديتے۔‘‘
امام صاحب سے يہ واقعہ سن کر بخشو اور اس کے دوستوں کو بہت اثرہوا اس لئے کہ روزانہ اللہ اور اس کے پيارے حضور نبی صلی اللہ عليہ وسلّم کی باتيں سن سن کر انکے دلوں ميں اللہ اور پيارے حضور نبی صلی اللہ عليہ وسلّم کی محبت دل ميں بيٹھ گئی تھی۔بخشو اور اس کے دوستوں نے اس کے بعد اونٹوں  کوکبھی نہيں تنگ کيا۔
تو پیارے دوستو اپنےآپ بھی وعدہ کر لو کہ آج کے بعد کسی بے زبان جانور کو تنگ نہیں کرو گے اور ان کا بھی اتنا ہی خیال رکھو گے جتنا اپنا رکھتے ہو۔


Sunday, 5 March 2017

شرارتی مونو


شرارتی مونو
(تحریر: عظمیٰ  عبداللہ۔کوئٹہ)
پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں دو خرگوش رہتے تھے۔ ایک کا نام سونو اور دوسرے کا نام مونو تھا۔سونو بڑا اور مونو چھوٹا تھا ۔ دونوں بھائی گول مٹول اور بہت پیارے تھے۔مونو کا رنگ سفید اور سرخ تھا۔اپنے رنگ کی وجہ سے سب سے الگ لگتا  تھا۔مونو دوسرے خرگوشوں کا مذاق اڑاتا تھا اور ان کو تنگ بھی کرتا تھا۔
بہت دفعہ  سونو نے مونو کو سمجھایا کہ وہ دوسروں کو تنگ نہ کیا  کرے ۔تمہاری وجہ سے دوسرے جانوراداس ہو جاتے ہیں مگر سونو کہاں اس کی بات سنتا تھا ۔ وہ بس شرارتوں میں لگا رہتا۔ کبھی کسی کی گاجر کھا جاتا کبھی کے جوتے چھپا دیتا۔ کئی بار وہ بند ر انکل کے کیلے چھپا دیتا تھا۔ بندر انکل اسی لیے مونو سے ناراض تھے۔  
مونو کے بالکل الٹ،  سونو  بہت اچھا تھا۔ وہ دوسروں کا خیال رکھتا تھا اور کبھی کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔  اس لیے جنگل کے سارے جانور اسکے دوست تھے۔
ایک دن شرارتی مونو کھانے کی تلاش میں گھر سے نکلا گیا۔برگد والا درخت، آم کا درخت، انگور کی بیل،بھالو انکل کا گھر، مینڈک والا تالاب، بندر انکل والا درخت۔ یہ کیا! یہ تو بندر انکل کا گھر آگیا تھا۔ اس  کا مطلب تھا کہ  مونو اپنے گھر سے بہت آگے نکل آیا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے ڈر لگنے لگا۔ اس نے سوچا پہلے کچھ دیر آرام کر لوں۔بیٹھے بیٹھے  اسکی آنکھ لگ گئی۔
اچانک کچھ شکاری وہاں سے گزرے۔انہوں نے جو اتنا پیارا خرگوش دیکھا تو فوراََ اسے اپنے پنجرے میں بند کر لیا ۔ مونو نے چیخ چیخ کر سب کو مدد کے لیے بلایا ۔’’میری مدد کرو۔ یہ مجھے لے کر جارہے ہیں۔اوہ میری مدد کرو سب!‘‘
بندر انکل نے پتوں کے پیچھے سے نکل کر دیکھا۔ سونو کو شکاری پنجرے میں لے کر جارہے تھے۔ وہ جلدی سے چھلانگ لگا کر نیچے آئے اور پنجرے کو ٹکر ماردی۔ شکاری  کے ہاتھ سے پنجرہ گر گیا اور اس کا دروازہ کھل گیا۔ مونو جلدی سے نکلا اور بھا گ گیا۔ بند ر انکل بھی چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھ گئے۔ شکاری کو غصہ تو آیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔

پیارے بچو!اب بندر انکل کے کیلے والے غائب نہیں ہوتے۔ مونو نے  ان سے معافی مانگ لی اور اچھا بچہ بن گیا ہے۔اور ہاں! اب اگر آپ اسے شرارتی کہیں گے تو وہ برا مان جائے گا! ا ٓپ بھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی بجائے مل جل کر رہا کروتاکہ سب آپ کے دوست بن جائیں۔

Friday, 3 March 2017

خوشی کے آنسو


خوشی کے آنسو
(تحریر: سیما رضوان)
مسز سعید لمبی سی گاڑی سے اتریں۔  گھر میں داخل ہوتے ہی ملازمہ سے بولیں کہ جلدی سے کھانا میز پر لگا دو پھر مجھے اپنی ایک دوست کے گھر جانا ہے۔
 اتنے میں فیصل جو ان کا اکلوتا بیٹا تھا لاؤنج میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا دوست عمر بھی تھا۔
 عمر کو دیکھتے ہی مسز سعید کا منہ بن گیا۔ وہ فیصل کے غریب دوستوں کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔
’’ خیریت ہے عمر ! کیسے آنا ہوا؟   فیصل! میں نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ جو بھی بات ہو تم لوگ یونیورسٹی میں ہی کرلیا کرو۔یوں ان ۔۔ کو گھر لانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘مسز سعید کے لہجے میں واضح حقارت تھی جس کو عمر نے بری طرح محسوس کیا۔
’’ ماما عمر کو کچھ کام ہے وہ اس لیے میرے ساتھ چلا آیا ہے۔‘‘ فیصل کو ماما کی ناپسندیدگی کا اچھی طرح علم تھا۔ اس لیے ہچکچاتے ہوئے بولا۔ ’’عمر کو کچھ سافٹ وئیر چاہیے تھے جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ وہی دینی تھی۔‘‘ 
مسز سعید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کھانے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ لیکن ان کے ماتھے پر پڑے بل بتا رہے تھے کہ انہیں عمر کا یوں چلے آنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ بھئی  گیٹ سے ہی دے دیتے۔ اندر لانے کی کیا ضرورت تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی وہ سوچ رہی تھیں۔  کتنی مرتبہ سمجھایا ہے اس لڑکے کو کہ دوست اپنی حیثیت کے مطابق بنایا کرو۔لیکن اس معاملے میں سب بچے اپنے ابا جان پر چلے گئے ہیں۔ مسز سعید کا موڈ خرا ب ہو چکا تھا۔ انہیں کھانا بھی پسند نہیں آیا۔ ملازمہ کو بلا کر برتن اٹھانے کو کہا اور سونے چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح دن گز رتے چلے گئے۔ ایک دن فیصل جب یونیورسٹی نہیں آیا ۔اس دن بہت اہم ٹیسٹ تھا۔
عمر نے فیصل کو فون کیا اور پوچھا۔’’ یار خیر تو ہے تم آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’ رات میں ابو کی اچانک بہت طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔اس لیے ابو کو لے کر ہسپتال میں ہوں اور رات سے نہ جانے کتنے ٹیسٹ ہوگئے ہیں مگر ڈاکٹر کچھ بتاتے ہی نہیں ہیں کہہ رہے ہیں کہ کچھ اور ٹیسٹ ہوں گے ۔‘‘
یہ سن کر عمر کی نرم دل طبیعت پریشان ہو گئی۔ ’’اچھا  تم پریشان نہ اللہ ضرور کرم کرے گا اور فون بند کرو ۔میں تمہارے پاس آتا ہوں۔‘‘  اس نے کہااور اللہ حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
عمر جیسے ہی ہسپتال میں داخل ہوا۔ فیصل کا تو فکر مند چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ خیر نہیں ہے۔
’’ کیا کہا ڈاکٹر صاحب نے فیصل ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
فیصل نے رونے والی آواز میں بولا ۔’’ یار تمھیں تو پتہ ہے کافی عرصے سے بابا بیمار تھے۔ کل رات زیادہ طبیعت خراب ہوئی تو ہم فوراً ہسپتال چلے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ابھی بلا کر تفصیل سے بتایا ہے کہ میرے ابو کے دونوں گردوں میں  کافی خرابی ہوگئی ہے ۔اس لیے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ان کو فوراً ڈائلیسز مشین پر ڈال دیا گیا ہے۔ ابھی تو ہفتے میں دو دفعہ ڈائلیسز کریں گے مگر مکمل علاج یہ ہی ہے کہ ان کا گردہ تبدیل کردیا جائے۔‘‘فیصل نم آنکھوں کے ساتھ بتار ہا تھا۔
’’ فیصل تم خود کو سنبھالو ورنہ ہم انکل کا خیال کیسے کریں گے اور آنٹی کو بھی بہت طریقے سے یہ سب بتانا ہوگا اور تم سب سے پہلے تو انکل کے بھائی کو بھی اطلاع کردو۔‘‘ عمر نے  تو فیصل نے بتایا کہ میں نے ان کو صبح ہی فون کردیا تھا۔ تایا جان اور چاچو نے لاہور سے فلائیٹ لے لی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال تھا کہ کس کا گردہ فیصل کے بابا سعید صاحب  کو لگایا جائے۔ فیصل نے اپنے آپ کو پیش تو کیا لیکن اس کا بلڈ گروپ میچ نہیں کرتا تھا۔
سعید صاحب کے جب بھائی آئے تو ان کے سامنے یہ ماجرا رکھا گیا ۔ تایا ابو نے تو فوراً کہہ دیا کہ میرا ہائی بلڈ پریشر  مجھے اجازت نہیں دیتا اور چاچو تو تھے ہی شوگر کے مریض ان کا تو لے ہی نہیں سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ہسپتال کے لیونگ روم میں پریشان بیٹھے تھے۔ مسز سعید کا تو بُرا حال تھا ۔
’’میں نے سوچ لیا ہے۔ امی سے بات بھی کر لی ہے۔  میں انکل کو گردہ دوں گا۔‘‘ کافی دیر بعد عمر نے کہا۔
سب حیران رہ گئے۔ فیصل کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ عمر اس حد تک اس کی مدد کرے گا۔
 ’’آنٹی میرے پاس دولت نہیں مگر انسانیت ضرور ہے میں بھی آپ کا بیٹا ہوں۔‘‘ عمر نے مسز سعید کے حیران چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو مسز سعید نے روتے ہوئے عمر کو گلے سے لگالیا۔
اللہ نے سب کی دعائیں سن لیں اور ایک مہینے کے اندر ہی سعید صاحب کو عمر کا گردہ لگا دیا گیا اور سعید صاحب روبہ صحت ہونے لگے۔ مسز سعید نے جب ساری بات سعید صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا۔’’ دیکھو بیگم! میں تم سے ہمیشہ کہتا تھا کہ  یہ بنگلہ ، گاڑی ، دولت ، امیر غریب کچھ نہیں ہوتا ۔بس انسان میں انسانیت ہونی چاہیے ۔ہمیں نہیں معلوم ہمارا رب کب کس سے کون سا کام لے لے۔ کبھی بھی اللہ کی مخلوق کو حقیر نہ جانو۔‘‘

’’ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میری آنکھوں پر پٹ بندھ گئی تھی۔ میں غلط تھی۔ واقعی انسان کا دل بڑا ہو نا چاہیے۔ دولت تو آنی جانی چیز ہے۔اب میرے لیے فیصل اور عمر دونوں برابر ہیں۔ میں نے اس اتوار کو عمر کے سب گھر والوں کی دعوت بھی رکھی ہے۔‘‘ مسز سعید شرمندہ سے لہجے میں کہ رہی تھیں تواندر آتے ہوئے فیصل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خوشی کے آنسو!

مخلص دوست


مخلص دوست
(تحریر: امِ عبد اللہ)
ایک پتھر درخت کی سب سے بالائی شاخ پر بیٹے ہوئے طوطے کو لگا اور وہ پھڑپھڑاتا ہوا شاخ سے گر کر نیچے زمین پر آن گرا.... اسے تڑپتا دیکھ کر ندیم کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
نشید سے یہ منظر دیکھا نہیں گیا، وہ دور کھڑا ندیم کی حرکات کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا، تیز تیز قدم بڑھا کر ندیم کے قریب پہنچ کر کچھ کہنا ہی چاہ رہا تھا کہ ندیم بول اٹھا، نشید دیکھا تم نے میرا نشانہ، اب دیکھو میں اس اڑتے ہوئے کبوتر کو کیسے اپنے نشانے پر لیتا ہوں، کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑی غلیل تان لی۔
ندیم بس کرو، ایک مسلمان ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کو یہ حرکت زیب نہیں دیتی، کہتے ہوئے نشید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، کیوں، خیریت تو ہے کوئی چڑیا گھر کھولنے کا پلان بنا لیا ہے تم نے۔ ندیم نے عجیب انداز میں منہ بناتے ہوئے سوال کیا۔
ندیم، یہ مذاق نہیں ہے، میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں تم بے زبان، معصوم پرندوں کو نشانہ بنا کر ان کی زندگی سے کھیل رہے ہو، ان معصوم پرندوں کو ہلاک کرکے تمہیں ملتا کیا ہے، نشید نے نرم انداز میں کہا۔
ارے یار، آج تم بہت سنجیدہ نظر آ رہے ہو، ندیم نے بات کو ٹالنے کے انداز میں کہا۔
میں واقعی مذاق نہیں کررہا ہوں، اگر میری تم سے دوستی نہ ہوتی تو میں۔۔۔۔ کہتے کہتے نشید نے اپنا جملہ نامکمل چھوڑ  دیا، دوستی نہیں ہوتی تو پھر کیا کرلیتے تم۔ ندیم تنک کر بولا، میں نے پرندوں کو ہی تو مارا ہے، تمہارا کوئی ذاتی نقصان تو نہیں کیا، یہ پرندے کیا تم نے خرید رکھے ہیں، اس نے جارحانہ انداز میں کہا۔
میں نے انہیں خرید نہیں رکھا ہے مگر ان معصوم پرندوں نے تمہارا کیا بگاڑا، کیا نقصان کیا ہے جو ان سے ان کی زندگی چھین رہے ہو، نشید نے نرمی سے سمجھانے کے سے انداز میں کہا، پھر ذرا ٹھہر کر بولا، اپنی ذرا دیر کی خوشی کے لیے اپنی تفریح کے لیے کسی کی جان لے لینا اچھی بات نہیں ہم مسلمان ہیں، اسلام سلامتی کا مذہب ہے، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کا ہم کلمہ پرھتے ہیں، سارے جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے، ہم ان کے امتی ہو کر وہ کام کریں جو ہمیں کرنا ہی نہیں چاہیے، ایک اصول ہے وہ یہ کہ اگر تم کسی کو وہ چیز نہیں دے سکتے تو اس سے تمہیں لینا بھی نہیں چاہیے، زندگی دینے اور لینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، نشید نے بڑی نرمی سے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ایک مسلمان کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کسی پر ظلم ہوتا دیکھے تو اسے ظلم کرنے سے روک لے، اگر وہ ظالم کو ظالم کرنے سے روک نہیں سکتا تو اسے اپنے دل میں برا ضرور سمجھے، میں تمہاری بھلائی کے لیے سمجھا رہا ہوں، نشید نے کہا۔ 
بس، بس رہنے دو میری بھلائی،میں خود سمجھتا ہوں ا پنی بھلائی اپنی برائی کو،تم اپنے کام سے کام رکھو بس، ندیم نے اسی طرح تنکتے ہوئے کہا۔
نشید نے کیا۔ ٹھیک ہے، ابھی تو میں جارہا ہوں مگر میری یہ بات یاد رکھنا، آئندہ کسی معصوم پرندے کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تو ٹھیک نہیں ہوگا، یہ کہہ کر نشید نے جانے کے لیے جیسے ہی اپنا قدم آگے بڑھایا ندیم نے ایک اور کبوتر کو نشانہ بنا کر اس کی جان لے لی، نشید یہ دیکھ کر اس پر جھپٹا اور اس کے ہاتھ سے غلیل چھین لی، ندیم اپنی غلیل اس سے واپس لینے کے لیے بھپرے ہوئے انداز میں جھپٹا مگر نشید جھکائی دے کر تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا، نہ جانے کیسے ندیم کا پیر پھسلا، وہ ڈگمگایا، سنبھلنے کی کوشش کی مگر اوندھے منہ زمین پر گرپڑا، جس جگہ وہ گرا تھا وہیں ایک بڑا نوکیلا پتھر پڑا ہوا تھا جو اس کی پیشانی میں بری طرح چھب گیا اور پیشانی سے خود کی دھار بہہ نکلی، نشید نے یہ دیکھا تو واپس پلٹا، اس نے ندیم کو اٹھایا اور اپنا رومال اس کے زخم پر رکھ کر خون روکنے کی کوشش کرنے لگا، مگر جب ناکام رہا تو اسے ساتھ لے کر قریبی کلینک لے گیا، ڈاکٹر نے دیکھا زخم گہرا تھا، پوچھا یہ کیسے لگا تو نشید نے ساری بات بتا دی۔
ڈاکٹر نے کہا۔ بیٹے شکر کریں، یہ قدرتی سزا ہے، اللہ کی طرف سے آپ کے ظلم کی، آپ کو ایک اچھا دوست ملا ہے جو آپ کو غلط کام سے روکنا چاہتا ہے، آپ نے قرآن مجید پڑھا ہے، ندیم نے اقرار میں سر ہلا دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس کی سورة الزلزال یاد ہے آپ کو، ندیم نے پھر اقرار میں سر ہلا دیا، شاباش یہ تو بہت اچھی بات ہے ذرا سنائیے تو سہی، ڈاکٹر صاحب نے ندیم سے بڑے ہی دوستانہ انداز میں کہا، ندیم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورة الزلزال سنا دی۔ ماشاءاللہ، آپ کو اچھی طرح یاد ہے، اور پڑھتے بھی بہت پیارے انداز میں ہیں اب ذرا یہ بتائیں آپ کو اس کا ترجمہ بھی آتا ہے، اس پر ندیم نے انکار میں سر ہلادیا۔ ارے بھائی، یہ کیا بات ہوئی، آپ نے قرآن مجید پڑھا، سورت بھی یاد کی مگر اس کا ترجمہ نہیں معلوم آپ کو، پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ترجمہ جاننے سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ قرآن مجید کی یہ سورة مدنی ہے اور اس میں سات آیات ہیں، پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: جب زمین اپنی پوری شدت سے ہلا ڈالی جائے گی اور دوسری آیت میں کہا ہے اور انسان کہے گا یہ کیا ہو رہا ہے پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس روز وہ اپنے اوپر گزرتے ہوئے حالات بیان کرے گی کیوں کہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا، اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں پھر آخری دو آیات میں سے ایک آیت میں کہا ہے کہ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور دوسری آخری آیت میں کہا ہے کہ جس نے ذرا برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے آگے کہا بیٹے میں نے پہلے کہا تھا یہ قدرتی سزا ہے جو آپ کو اسی وقت مل گئی یہ آپ کے ظالم کی جو بے زبان، معصوم پرندوں کی جان لے کر کرتے ہیں کی ملی ہے، پھر آپ کا دوست اپنی دوستی، اپنی اسلامی تعلیم اور اسلامی اخوت، محبت کا خیال کرتے ہوئے آپ کو میرے کلینک تک لے آیا، یہ بھی اللہ کی طرف آپ کے دوست کے دل میں ڈالی گئی بات ہے۔ ذرا سوچیے وہ آپ کو زخمی حالت میں وہیں پڑا چھوڑ کر اپنے گھر چلا جاتا تو بروقت طبی امداد نہ ملنے پر آپ کے زخم کی نوعیت کیا ہوتی کی زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کمزوری محسوس نہ کرتے اور ندیم ڈاکٹر صاحب کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔
اس کی گردن ندامت سے جھکی ہوئی تھی، وہ اپنے عمل پر شرمسار تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے کرم کا شکر ادا کررہا تھا جس نے نشید کی صورت میں ایک اچھا مخلص دوست اور ڈاکٹر صاحب کی صورت میں ایک اچھا رہنما، جب وہ نشید کے ساتھ کلینک سے باہر نکلا تو دل ہی دل میں فیصلہ کرچکا تھا کہ آئندہ وہ کسی بھی پرندے کو کسی بھی کمزور کو ناحق اپنے ظلم کا نشانہ نہیں بنائے گا۔
ایک دن ندیم نے صبح سویرے مٹھی بھر باجرے کے دانے اپنے آنگن میں ڈال دیے، دانے دیکھ کر کئی کبوتر اور دوسرے پرندے دانہ چگنے صحن میں آ گئے، ندیم کو دانہ چگتے ہوئے پرندے بہت اچھے لگ رہے تھے آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ ظلم وہ ہے جس سے دل و دماغ میں چبھن ہی محسوس ہو اور نیکی وہ جس سے دل و دماغ میں خوشی، سکون اور اطمینان کا احساس پیدا ہو۔ اب ندیم وہ پہلے والا ندیم نہیں رہا تھا۔
اس کا ہر فعل، ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوگیا تھا، اس کی سوچ کا عمل بالکل بدل چکا تھا، نشید اب اس کا سب سے مخلص دوست تھا۔


کوئی بات نہیں!


کوئی بات نہیں!
(تحریر: امِ عبد اللہ)
عائشہ نے بہت بے چینی سے ایک مرتبہ پھر گھڑی کو دیکھا اور نظریں گیٹ پر جما دیں۔ اسکول لگنے میں صرف 5 منٹ ہی رہ گئے تھے اور ابھی تک مومنہ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اس نے  غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور مومنہ کے جلد آنے کی دعا کی لیکن پانچ منٹ بھی گزر گئے اور گھنٹی کی آواز پر وہ مردہ قدموں سے اسمبلی گراونڈ کی طرف چل پڑی۔ اب کیا ہوگا، اس کے ذہن میں بار بار یہی سوال گونج رہا تھا۔ 
اسمبلی کے دوران بھی خالی الذہن کھڑی رہی، اس کے سامنے کل کا واقعہ گھوم رہا تھا۔
عائشہ۔پلیز مجھے تم سے ایک کام ہے تفریح کے وقفے میں مومنہ نے اس سے کہا تھا۔
’’کس قسم کا کام؟‘‘ وہ مسکرائی۔
’’تمہیں تو پتا ہے پچھلے ہفتے دادا جان کی وفات کی وجہ سے ہمیں گاؤں جانا پڑگیا تھا اس لئے کافی دن اسکول نہیں آ سکی۔ میں چاہ رہی تھی کہ آج تم حساب اور سائنس کی کاپی مجھے دے دو تاکہ میں پچھلا کام اتار سکوں۔‘‘
اور عائشہ نے تھوڑی سی پس و پیش کے بعد جلدی واپس کرنے کی تاکید کے ساتھ دونوں کاپیاں اسے تھما دی تھیں اور آج آج مومنہ آئی ہی نہیں تھی۔ غصہ آنا تو فطری بات تھی۔ کل مومنہ آئے گی، تو خوب لڑوں گی اس نے فیصلہ کیا۔
’’السلام علیکم عائشہ! یہ رہیں تمہاری کاپیاں ۔ میں تو کل ہی۔۔۔‘‘ اگلے دن مومنہ نے اس کی کاپیاں اسے واپس کرتے ہوئے صفائی پیش کرنا چاہی لیکن اس نے مومنہ کی پوری بات سنے بغیر ہی کاپیاں جھپٹیں اور یہ جا اور وہ  جا۔  سننے کی بھی زحمت نہ کی۔
 اب عائشہ نے کاپیوں کی جو حالت دیکھی تو اسے مزید غصہ آیا۔ ان کا کور جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا اور جلد اکھڑ نے کے قریب تھی، ایک دو صفحات پر مٹی کے نشان بھی موجود تھے، نہ جانے یہ میری کاپیوں کے ساتھ کیا کام کرتی رہی۔ ہونہہ آئندہ اسے کوئی چیز نہیں دوں گی، اس نے فیصلہ کیا۔
اسی وقت مومنہ دوبارہ اس کے پاس آئی ۔ ’’عائشہ میری بات سنو۔‘‘
’’بولو۔۔۔!‘‘ اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔ اب ضرور کوئی بہانہ بنائی گی۔ اس نے سوچا۔
’’پرسوں شام کو میں نے تمہاری کاپیاں اپنے چھوٹے بھائی کو دی تھیں کہ تمہیں واپس کر آئے، وہ سائیکل پر تمہاری طرف جا رہا تھا کہ راستے میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور بہت سی چوٹوں کے علاوہ اس کا  دایاں بازو بھی ٹوٹ گیا۔ امی تو ابھی تک گاؤں سے نہیں آئی تھیں۔ اس لئے مجھے کل کی چھٹی کرنی پڑی۔ امی کل شام کو ہی پہنچی ہیں اس لئے میں آج اسکول آئی ہوں۔ ان حالات میں مجھے ذرا فرصت نہیں ملی کہ تمہاری کاپیوں کی حالت ہی درست کر دیتی ، پلیز مجھے معاف کردو۔‘‘
عائشہ نے گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیا اور کچھ کہے بغیر وہاں سےاٹھ آئی۔ پورا دن اس نے مومنہ سے کوئی بات نہیں کی حالانکہ اس سے اس کی بہت دوستی تھی۔
دن گزرتے گئے یہ واقعہ ماضی کی گرد میں دب گیا، پھر یہ ہوا کہ بدلتے موسم نے جہاں اور بہت سے بچوں کو بیماری کا تحفہ دیا وہاں عائشہ کو بھی شدید بخار اور کھانسی نے آ گھیرا۔ اس نے دو دن اسکول سے چھٹی کی۔ کڑوی کڑوی دوا پینی پڑی۔ تیسرے دن طبعیت سنبھلی تو امی نے اسکول بھیجا اور ایک دو دن میں وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئی۔
اس دن کلاس میں مسں نے اطلاع دی کہ  پرسوں سائنس کا ٹیسٹ ہوگا تو ایک دم عائشہ کو یاد آیا بیماری کے دنوں میں جو چھٹیاں کیں تھیں تو سائنس کے کچھ نوٹس لکھنے رہ گئے تھے۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر پاس بیٹھی مومنہ نے وجہ پوچھی۔ 
اس نے بتایا تو مومنہ نے بغیر کچھ کہے اپنی سائنس کی کاپی نکال کر اسے دے دی۔
’’یہ لو تم اتنی سی بات پر پریشان ہو رہی تھیں۔ تسلی سے نوٹس اتارو، کل واپس کر دینا۔ ٹیست تو پرسوں ہے نا۔‘‘
عائشہ نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کاپی بیگ میں رکھ لی۔ عائشہ گھر پہنچی تو خالہ جان اپنے تین عدد شرارتی بچوں سمیت آئی ہوئی تھیں۔ عائشہ نے بستہ کمرے میں رکھا اورخالہ جان سے گپ شپ کرنے لگی۔ جب کہ ان کے بچے اسد اور حمزہ کے ساتھ مل کر پورے گھر میں اودھم مچا رہے تھے ۔ وہ تو شاید شام تک باتیں ہی کرتی رہتی اگر امی جان کھانے کے لئے آواز نہ دیتیں۔
’’اچھا امی جان میں یونیفارم بدل کر آتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی لیکن دروازے میں ہی ٹھٹک گئی۔ ’’یا خدایا یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ!!‘‘ وہ بچوں کو دیکھ کر چلائی جو کاغذ پھاڑ کر اس کے جہاز بنانے اور اڑانے میں مصرورف تھے۔
’’باجی دیکھیں میرا جہاز!‘‘  مانی نے ایک جہاز لہرایا۔
’’یہ صفحے کہاں سے پھاڑ ے ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھی اور جیسے ہی کاپی پر نظر پڑی اس کی چیخ نکل گئی۔’’مومنہ کی کاپی!!!‘‘  پھر وہ ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔
’’کیا کیا ہے تم نے؟ یہ میری کاپی نہیں تھی میری دوست کی تھی نکل جاؤ سب میرے کمرے سے !‘‘ اور وہ پانچوں جلدی سے کھسک گئے۔
’’اف اب کیا کروں؟‘‘ اس نے آنسوئوں کو پونچھتے ہوئے سوچا۔ رات کو ڈرتے ڈرتے اس نے مومنہ کو فون کیا۔ مومنہ مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کہنا تھی۔
’’دراصل کاپی کے متعلق ہے۔‘‘
’’ کیا ابھی تک نوٹس مکمل نہیں ہوئے۔ اچھا ایسا کرنا کل اسکول لے آنا ہم دونوں مل کر لکھ لیں گے۔‘‘مومنہ اصل بات سے بے خبر بولتی چلی گئی۔
’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔‘‘اسے بولنے میں بہت دقت ہو رہی تھی۔
’’ پھر کیا بات ہے ؟‘‘ عائشہ کے لہجے کو محسوس کرتے ہوئے وہ بھی سنجیدہ ہو گئی۔
’’وہ تمہاری ۔۔۔ میرے بھائی۔‘‘ بات پوری کرنے سے پہلے ہی وہ رو پڑی۔
’’عائشہ کیا ہو گیا ہے؟ کیوں رو رہی ہو۔ ؟ سوال نہیں آ رہے  تومیں سمجھا دوں گی۔ ‘‘ مومنہ واقعی پریشان ہو گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیسے تسلی دے ۔
’’عائشہ کچھ تو بولونا۔‘‘
’’ میں تمہیں بعد میں بتأوں گی۔‘‘ بڑی مشکل سے یہ جملہ ادا کرکے اس نے فون بند کردیا۔ جب اسے اپنی کاپی کا یہ حشر نظر آئے گا تو اس کا کیا رد عمل ہوگا؟ عائشہ نے سوچا اور پھر تخیل کی نگاہ سے مومنہ کو بہت غصے میں کہتے سنا۔
’’میں نے تمہیں کاپی اس لئے تو نہیں دی تھی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کے حوالے کر دو کہ لو جہاز بنا کر اڑأو۔ مجھے میری کاپی چاہئے صحیح سلامت حالت میں سمجھیں تم؟‘‘
اف! عائشہ نے گھبرا کر سر جھٹکا ۔ آنسو تو تھم چکے تھے مگر انجانا سا خوف مسلسل موجود تھا۔ اللہ میاں آپ تو جانتے ہیں نا کہ اس میں میرا قصور نہیں تھا ۔ پلیز معاف کر دیں۔ اس نے صدق دل سے دعا مانگی ۔اسی وقت دروازہ کھلا اور مومنہ آندھی اور طوفان کی طرح اندر داخل ہوئی۔
’’کیا ہوا ہے ؟ اتنا کیوں رو رہی تھیں؟فون کیوں بند کر دیا تھا؟‘‘ اس نے ایک دم سے کئی سوال داغ دیے اور عائشہ اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ پھر اس نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا اور آہستہ آہستہ رک کر جھجکتے ہوئے ساری بات بتا دی اور پھر بولی۔ ’’ مومنہ یقین کرو میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں میرا کوئی قصور نہیں۔‘‘
اس کا خیال تھا کہ مومنہ بہت ناراض ہو گی۔ شاید غصے میں اٹھ کر ہی چلی جائے لیکن جب اس نے اسے مسکراتے دیکھا تو حیران رہ گئی۔’’ بس اتنی سی بات۔ تھوڑے سے صفحے ہی پھٹے ہیں نا جلد ہی ذرا ڈھیلی ہوئی ہے نا۔ چلو کوئی بات نہیں! ‘‘ اور عائشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا۔’’ تم نے میری بات کا یقین تو کر لیا ہے نا؟‘‘
’’عائشہ میں نے اقوال زیں کی کتاب میں یہ پڑھا تھا کہ ہر مسلمان کا یہ حق ہے کہ اس کا عذر قبول کیا جائے اور تم تو صرف مسلمان ہی نہیں میری اتنی اچھی دوست بھی تو ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے عائشہ کا ہاتھ تھام لیا۔ عائشہ کو کچھ دن پہلے  کا واقعہ یاد آ گیا اور اس نے سوچا کیا میں نے اپنی مسلمان دوست کا یہ حق پہچانا تھا؟