Wednesday, 11 January 2017

جب پھلوں نے باتیں کیں!


جب پھلوں نے باتیں کیں!
(تحریر: شاہین انجم)
فاتی اور بلو  کی امی جان کمرےمیں داخل ہوئیں تو ان کے ہاتھ میں پھلوں   کی ایک  چھوٹی سی  سرخ پلیٹ تھی۔
’’ بیٹا! یہ پھل لازمی کھائیں۔ پھل آپ کی صحت کے لیے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ‘‘ امی جان نے پیار سے کہا اور پلیٹ رکھ کر چلی گئیں۔
’’نہیں میں نہیں کھا سکتا۔ مجھے تو پھل اچھے ہی نہیں لگتے۔ ‘‘  دس سالہ بلونے منہ بنا کر کہا۔  نو سالہ فاتی کا دل بھی بالکل نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے پلیٹ کو ڈھک کر رکھ دیا  اورلائٹ بند کر کے زیرو کا بلب لگا لیا۔
 ابھی ان کی آنکھ لگنے ہی والی تھی  کہ اچانک ایک پتلی سی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’دیکھو تو! ان بچوں  نے تم لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اور تم لوگ کچن میں خوش ہو رہے تھے کہ ابھی ہم فاتی اور بلو کے پاس جائیں گے اور وہ ہمیں مزے مزے سے کھائیں گے۔ ‘‘
فاتی اور بلونے ڈرتے ڈرتے کمبل  میں سے ایک جھری سی بناکر باہر دیکھا۔ یہ آواز سرخ پلیٹ سے آرہی تھی۔
’’لیکن ہو سکتا ہے وہ ہمیں بھول گئے ہوں! ‘‘ یہ سیب کی ننھی سی ایک کاش تھی جو ہمیشہ خوش گمان رہتی تھی۔
’’ہاں فاتی نے ہمیں ایک نظر دیکھا تو تھا۔لیکن  پھر وہ  لائٹ بند کرنے چلی گئی۔ ‘‘ مالٹے کی پھانکیں الجھن کا شکار تھیں۔
’’دیکھو بھئی! اگر بلّونے مجھے  نہیں کھایا   ناں تو یہ اس کی بہت بڑی بے وقوفی ہے۔  کیونکہ میں نے آج دوپہر کو امی جان سے سنا کہ بلّو کو ایتھیلیٹ بننے کا بے حد شوق ہے۔ اور میں تو تما م مشہور ایتھیلیٹس پسندیدہ پھل ہوں کیونکہ میں طاقت اور توانائی کا سرچشمہ ہوں‘‘ کیلے کے لہجے میں فخر تھا۔
تمام پھل اس کو رشک سے دیکھنے لگے۔ لیکن  انار پیچھے کہاں رہ سکتا تھا! وہ بھی فوراً بول پڑا۔
’’اور  بھئی میں تو جنت کا پھل ہوں۔ مجھے اگر فاتی اور بلّو نے نہیں کھایا تو پھر کچھ نہیں کھایا۔ اگر فاتی  میرے سرخ سرخ دانے روز کھاتی تو اس کا ہر وقت پیاس لگنے والا مسئلہ واقعی حل ہو جاتا!‘‘
بس پھر کیا تھا۔ تمام پھلوں کی آوازوں سے فائق کا کمرہ بھر گیا۔
سیب کہ رہا تھا۔ ’’ فاتی اور بلّو ویسے تو ذہین بچےہیں پھر پتہ نہیں وہ مجھے کیوں نہیں کھاتے۔ میں بچوں کے جسم اور دماغ کے لیے صحت کا ضامن ہوں  اور تو اور مجھے کھانے سے ان کے اندر خون کی کبھی کمی نہیں ہو گی۔‘‘
’’ بلّو اگر مجھے کھالے تواس کو کبھی معدے میں تیزابیت نہ ہو۔ دیکھا تھا ناں کل وہ درد کی وجہ سے دوا لے رہا تھا۔‘‘ مالٹے کی ایک پھانک سر نکال کر بولی ۔
’’ہاں وہ سکول کی پارٹی میں  چٹ پٹی مرچیلی بریانی  جوکھا آیا تھا۔‘‘ اس کی ہمسائی پھانک نے ہنس کر کہا۔
لیکن اب کریں تو کیا!  ‘‘سرخ پلیٹ بہت دیر کی خاموشی کے بعد بولی۔
’’لگتا ہے یہ دونوں سو گئے ہیں۔ اب ہمیں بھی سو جانا چاہیے۔ ‘‘ انار کے ایک ننھے سے دانے نے جو گلابی سے  کمبل کو اوڑھے بیٹھا تھا،ایک زوردار انگڑائی لیتے ہوئے  کہا ۔
’’ارے تو کیا واقعی فاتی اور بلّو  ہمیں نہیں کھائیں گے؟‘‘ مالٹے کی قاشوں نے اداسی سےپوچھا۔
’’نہیں کیونکہ انہیں پھل اچھے نہیں لگتے۔ ‘‘ کیلا افسردگی سے بولا۔
’’ہمیں پھل اچھے لگتے ہیں۔ ہمیں پھل اچھے لگتے ہیں۔ امی  ٹھیک کہتی ہیں  یہ ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ‘‘ 
فاتی اور بلّو  نے کمبل کے اندر سے ایک زوردار نعرہ لگایا اور اچھل کر بیٹھ گئے۔
سب پھل  فاتی اور بلّو کے بدلنے سے کتنا خوش تھے، یہ تو گلابی کمبل اوڑھے انار کے ننھے دانے کو  ہی معلوم تھا جو بظاہر تو  اب سوتا معلوم ہوتا تھا لیکن کیلے،  مالٹے کی پھانکوں اور سیب کی قاشوں کی  خوشی بھری سرگوشیاں  بخوبی سن رہا تھا!



انجو کے ناخن


انجو کے ناخن
(تحریر: آمنہ خورشید)
میرے سوہنے موہنے بچو! جمعہ کا دن تھا اور ننھی انجو ناخن کٹوانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ دادی اماں نے سوہن حلوے کا لالچ دیا، ابا میاں نے میلے میں جھولے دلوانے کا کہا اور اماں ! اماں تو کب سے کبھی پیار اور کبھی ڈانٹ کر اسے سمجھا رہی تھیں لیکن انجو ماننے کو تیار کب تھی۔ اس کا تو بس یہی کہنا تھا۔
’’پہلے مانو بلی کے بھی ناخن کاٹیں۔ پھر میں کٹواؤں گی۔ ‘‘ پہلے پہل تو سب اس کی بات سن کر ہنس پڑتے۔ پھر  بھیا نے کہا۔
’’انجو! بھوری مانو کے ناخن کاٹ دیں گے تو وہ چوہوں کا شکار کیسے کرے گی؟  ‘‘
انجو فٹ سے بولی۔ ’’گندی مانو! جب بوا اسے دودھ میں ڈبل روٹی ڈال کر دیتی ہیں تو وہ چوہوں کو کیوں کھانے جاتی ہے؟‘‘
بھیا پھر اسے سمجھانے بیٹھ جاتے یوں بات کہاں کہاں سے چلی جاتی ۔
 دادا ابو جمعہ پڑھ کر آئے تو دیکھا گھر میں یہی موضوع گرم تھا۔ یعنی انجو کے ناخن! دادا ابا نے انجو کو اپنے پاس تخت پر بٹھا لیا۔ اور دیر تک اس کی سب شکایتیں سنتے رہے۔ پھر وہ بولے ۔

’’میری پیاری انجو رانی! بھوری مانو اپنے تیز ناخنوں سے شکار میں مدد لیتی ہے اوروقت پڑنے پر  دشمن سے اپنا بچاؤ بھی کر لیتی ہے۔  یہ اللہ کا بنایا ہوا طریقہ  ہےجو اس نے مانو بی کو سکھایا ہے۔ انسان کو اللہ نے سب سے پیارا بنایا ہے ۔ ہمارے ہاتھوں پر  لمبے لمبے ناخن بالکل اچھے نہیں لگتے۔ اگر ہم  اپنے ناخنوں کو نہیں کاٹیں گے تو ان میں   چھوٹے چھوٹے  جراثیم پیدا ہو جائیں گے اور ہماری انگلیوں  کے ساتھ کھانے میں شامل ہو جائیں گے۔ پھر ننھی انجو کو بیمار ہونا  اور کڑوی دوا کھانا پسند نہیں ہے ناں؟‘‘ اپنی بات ختم کرتے ہوئے جب دادا ابو نے جھک کر انجو کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو اس نے زور زور سے سر ہلا دیا۔  پھر وہ جلدی سے اٹھی ،  جوتے پہنے اور اماں کے کمرے میں دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر بعد سب نے دیکھا انجو ہنسی خوشی ناخن کٹوارہی تھی اور ساتھ ساتھ بھوری مانو کو غور سے دیکھتی چلی جارہی تھی! 

اچھی بات نہیں


اچھی بات نہیں!
(تحریر: آمنہ خورشید)
میرے سوہنے موہنے بچو! کیسے ہیں آپ! آج میں آپ کو سناؤں گی دو ننھے منے  بندروں، سِلو اور مِلو کی کہانی جو سرسبز پہاڑی کے گرد، دور تک جاتی ہوئی سڑک کے کنارے ایک گھنے درخت پر رہا کرتے تھے۔روز وہ صبح سویرے اٹھتے پتوں سے بنے ہوئے اپنے گھر کو صاف ستھرا کرتے۔ باہر نکل کر آپا چڑیا، کوئل بہنا ، کوے بھیا اور مینا آنٹی کو صبح بخیر کہتے پھر خوراک کی تلاش میں نکل جاتے۔
ایک دن انہوں نے دیکھا سڑک کے کنارے ایک بڑی سی ویگن آ کھڑی ہوئی اور بہت سارے سیاح کیمرے تھامے  نیچے اترنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب باتیں کرتے کرتے کافی آگے چلے گئے۔ ویگن کا ڈرائیور سب سے اگلی سیٹ پر ٹانگیں دراز کیے اونگھ رہا تھا۔
سِلو نے سوچا ۔ اس ویگن میں تو کھانے پینے کی بہت ساری مزیدار چیزیں موجود ہو ں گی۔ کیوں نہ آج کا ناشتہ اُنہی سے کیا جائے۔ لیکن مِلو کو یہ بات اچھی نہ لگی۔
’’نہیں! سِلو ! ہم چپکے سے کسی کا کھانا نہیں کھائیں گے۔ بھالو انکل کہتے ہیں چوری کرنا اچھی بات نہیں۔ ‘‘
لیکن سِلو کی تو مانو رال ٹپکنے لگی تھی کیونکہ اسے پھل اور سنیکس سے بھری ہوئی ٹوکری نظر آگئی تھی۔
اس نے مِلو کی بات  نظر انداز کر دی اور یہ کہ کر گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا۔ ’’مِلو! یہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ آؤ! یہ مزے مزے کی چیزیں کھائیں۔ ‘‘ یہ کہ کر اس نے ادھ کھلے شیشے سے ہاتھ ڈال کر ٹوکری سے سیب اور کیلے اٹھا نے لگا۔ اچانک اس کی نظر نمکو کے پیکٹ پر پڑی۔
’’واہ! میں نے سنا ہے یہ بہت مزے دار ہوتا ہے۔ چلو ! آج یہ بھی کھا کر دیکھتے ہیں!‘‘ یہ کہ کر وہ تھوڑا سا اور نیچے جھک آیا۔ ٹوکری میں پڑی ہوئی نت نئی مزیدار  چیزوں کو کھانے کی کوشش میں  وہ تقریباً شیشے سے اندر آچکا تھا  کہ اچانک کھٹ پٹ کی آوازوں سے  ڈرائیور اٹھ گیا۔ اسے  جاگتا دیکھ کر سِلو اتنی گھبراہٹ میں باہر نکلا کہ ٹوکری میں ایک سائیڈ پرپڑے ہوئے چاقو سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا۔لیکن اس نے دوڑ لگائی اور اپنے گھر آکر ہی دم لیا۔
مِلو بھی اس کے پیچھے آرہا تھا۔ گھر آکر مِلو نے سِلو کے پاؤں پر حکیم جی کا دیا ہوا مرہم لگایا ۔ سِلو بے حد شرمندہ تھا اور مَلو سے آنکھ بھی نہیں ملا پا رہا تھا۔
’’دیکھو سِلو! میں نے تمھیں پہلے ہی منع کیا تھا ۔ خیر اب تمھیں سزا مل ہی گئی ہے ۔  چلو  اب جلدی سے یہ کھا لو۔ ‘‘ یہ کہ کر مِلو نے مسکراتے ہوئے، پیچھے چھپایا ہوا ہاتھ آگے کیا اور مزیدار نمکو اور میٹھے میٹھے کیلے اس کی طرف بڑھا دیے۔
’’یہ!! یہ کہاں سے آئے  تمھارے پاس؟‘‘ سِلو حیران رہ گیا۔

 مِلو نے کہا۔ ’’یہ مجھے اسی مہربان ڈرائیور نے دیے ہیں اور وہ کہ رہا تھا کہ...  چوری کرنا اچھی بات نہیں!‘‘   

تم تم چیونٹا


تم تم چیونٹا
(تحریر: آمنہ خورشید)
میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں آنے والی تھیں۔ ملکہ چاہتی تھی سب چیونٹیاں جلدی جلدی کام ختم کر لیں۔ نم نم اور تم تم دونوں بہن بھائی تھے۔ نم نم تو سارا دن خوراک اکھٹی کرتی رہتی جبکہ تم تم  چیونٹا سستی سے اپنے بستر پر پڑ ا رہتا۔ اس نے کبھی کوئی کام کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’تم تم! تم بھی تھوڑی سی حرکت کر لیا کرو۔ دیکھو تو! میں نے یہ ساتھ والا گودام کیسے بھر دیا ہے۔ ‘‘ نم نم نے بھائی کو ڈانٹا اور گودام کی طرف اشارہ کیا۔وہ چھوٹا سا ایک کمرہ تھا جو چینی کے ذروں، چاول کے دانوں اور ڈبل روٹی کے ننھے ٹکڑوں سے بھر چکا تھا۔
’’ہونہہ! آپا تم ہو ناں! مجھے کیا ضرورت ہے اتنی محنت کرنے کی۔ ویسے بھی زیادہ چلنے سے تھک جاتا ہوں۔ ‘‘ تم تم نے کہا اور کروٹ بدل کر پھر سو گیا۔
صبح ہوتے ہی نم نم ، تم تم کو سوتا چھوڑ کر نکل جاتی۔ سارے کمروں میں گھومتی اور جو بھی کھانے کو ملتا گودام میں لا کر رکھ دیتی۔ ملکہ اس کی محنت سے بہت خوش ہوتی۔کئی بار اس کو انعام میں کیک کا مزیدار ٹکڑا بھی ملا جس پر سفید ملائی لگی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’اچھا! تم نے غور سے دیکھا تھا؟‘‘ ملکہ پریشان ہو گئی تھی۔ جاسوس چیونٹی  جِم جِم نے بتایا تھا کہ اس نے ابھی ابھی کچن کے شیلف پر کیڑوں والا نیا سپرے دیکھا ہے۔
ملکہ  نے جلد ہی  ساری چیونٹیوں کو بڑے کمرے میں اکھٹا کر لیا۔
’’جِم جِم اور اس کی ٹیم نے ابھی ابھی ہمیں بتایا ہے کہ کچن میں کیڑوں کو مارنے والا نیاسپرے آچکا ہے۔ جلد ہی  حملہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں کچھ ہی دیر میں سارے سامان کے ساتھ کیاری والے گھر میں شفٹ ہونا ہے۔ فوراً سب تیاری کر یں اور چل پڑیں۔‘‘ ملکہ نے کہا اور اپنے محل میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اٹھو تم تم! ہم جارہے ہیں۔ کیارے والے گھر میں۔ تم بھی تیاری کرو۔‘‘ نم نم نے بھائی کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اوں ہوں۔ سونے دو ناں! ابھی تو میری آنکھ لگی تھی۔ ‘‘  تم تم آنکھیں ملتا ہوا بولا۔
’’جِم جِم نے بتایا ہے کہ گھر کا مالک کیڑوں والا نیا سپرے لے آیا ہے جو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس سے سانس بھی بند ہوجاتا ہے۔ ‘‘ نم نم  کہ رہی تھی۔
’’اچھا! اوہ! چلو پھر جلدی کرو۔ ‘‘ تم تم یہ سنتے ہی اٹھ بیٹھا اور سامان کے دو بیگ اٹھا لیے۔ نم نم نے اس کے مقابلے میں تین بڑے اٹھا رکھے تھے اور وہ چل بھی تیز تیز رہی تھی۔
تم تم بار بار قطار میں سب سے پیچھے رہ جاتا۔ اس کو اتنا زیادہ اور تیز چلنے کی عادت کہاں تھی۔قطار آدھی سے زیادہ باہر آچکی تھی۔  اچانک سپرے کی شوں شوں کی آواز آئی ۔ ساتھ ہی سب چیونٹوں کا جیسے دم گھٹنے لگا۔ وہ بھاگ بھاگ کر کیاری والے گھر میں  پہنچنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد نم نم اپنے نئے کمرے میں سامان سیٹ کر چکی تھی۔ ملکہ نے سب سے پہلے گودام بھروائے تھے۔ یہ سارابڑا سا گھر ان سب نے دو سال پہلے سے بنا کر رکھا ہوا تھا۔ تاکہ خطرے کے وقت یہاں شفٹ ہو ا جا سکے۔
نم نم نے کمرے سے نکل کر دیکھا۔ اس کو تم تم کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
’’ارے! تم نے میرے بھائی تم تم کو تو نہیں دیکھا؟ ‘‘ نم نم کیاری میں ہر گزرتی چیونٹی سے پوچھ رہی تھی۔  
’’ہاں یاد آیا! ‘‘ اچانک ایک چھوٹی سی چیونٹی نے بتایا۔
’’تم تم کو سپرے بہت زیادہ لگ گیا تھا۔ وہ کیاری سے باہر بے ہوش پڑا ہے۔‘‘
نم نم یہ سنتے ہی بھاگی۔ تم تم بڑی مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ سپرے نے اس کا سانس جیسے بند ہی کر دیا تھا۔
’’تم تم ! فکر نہ کرو۔ میں آرہی ہوں۔‘‘ نم نم نے کہا اور کیاری کی باڑ پھلانگ کر تم تم کے پاس پہنچ گئی۔ پھر وہ بڑی مشکل سے تم تم کو گھسیٹ کر ڈاکٹر چیونٹے کے پاس لے آئی۔ انہوں نے تم تم کو دوا دی اور ایک ٹیکہ بھی لگایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نم نم! میں بھی کل سے تمھارے ساتھ خوراک اکھٹی کرنے جایا کروں گا۔ ‘‘ تم تم شرمندگی سے کہ رہا تھا۔ ’’مجھے پتہ چل گیا ہے کہ کام کرنے سے خود ہماری صحت بھی تو ٹھیک رہتی ہے۔ پھر ملکہ کہتی ہیں۔ خود سے کھانا ڈھونڈ کر لانے اور کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔ ‘‘
نم نم بولی۔ ’’ٹھیک ہے۔ اب سو جاؤ۔ ابھی کچھ دن تک تو تم نے آرام کرنا ہے۔ ڈاکٹرنے کہاہے۔‘‘

’’اچھا!  واقعی! پھر تو مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ ذرا مجھے وہ والی مٹھائی تو لا دو جو تم نے گودام کے سب سے اوپر والے دراز میں رکھی ہے!‘‘ تم تم نے شرارت سے کہا تو نم نم کو ہنسی آگئی۔  

ایمو گٹھلی کی کہانی


ایمو گٹھلی کی کہانی
(تحریر: آمنہ خورشید)
میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھی سی گٹھلی کی جس کا نام ایمو تھا۔ یہ آم کی گٹھلی تھی۔ ایمو  کو افضل بابا نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ جب شام ہوئی تو افضل بابا اپنے گھر پہنچے۔ ان کے گھر کے باہر کیاری تھی۔ وہاں پہلے سے امرود اور لوکاٹ کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ایمو کو افضل بابا نے لوکاٹ سے کچھ ہٹ کر مٹی میں دبادیا۔
میرے بچو! ایمو جب مٹی کے اندر پہنچی تو اس کو بہت ساری نئی سہلیاں ملیں۔ یہ لوکاٹ اور امرود کی جڑیں تھیں۔ گلاب کے پودے نے بھی ایمو کو خوش آمدید کہا۔ موتیا البتہ کچھ ناراض تھا ۔ کیونکہ اس کو لگتاتھا اب ایمو کی جڑیں اس کی نازک جڑوں کو خراب کر دیں گی۔
پہلا دن تو ایمو کو یہ سب کچھ سمجھنے میں لگ گیا۔ اس کو درد بھی بہت ہو رہی تھی۔ لیکن اگلے دن صبح سویرے جب سورج بھیا نے اپنی نرم گرم دھوپ اس پر ڈالی تو وہ خوش ہو گئی۔ کچھ دیر بعد افضل بابا ہاتھ میں پھوار والا جگ لے کر چلے آئے۔ انہوں نے سب پودوں کو اچھی طرح پانی دیا۔ ایمو کو پانی میں ہلکا ہلکا نہانا بہت اچھا لگا۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایمو کے اندر سے بہت پیارا ننھا منا سا سبز پودا نکل آیا۔ سبھی نے تو ایمو کو مبارک باد دی۔ لوکاٹ کی جڑوں نے سب  دوستوں سہلیوں میں مٹھائی بانٹی۔ گلاب نے اپنے پھول کی ایک پتی ایمو کے پودے پر گرا دی تاکہ اسے خوشبو آتی رہے۔ اور تو اور نک چڑھے موتیا نے بھی ایمو کو ہلکی ہلکی سی خوشبو سے مبارکباد کہا۔
’’لیکن مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ ایمو نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ واقعی جب سے پودا اس کے اندر سے نکلا تھا درد  اور چبھن سے اس کا برا حال تھا۔
’’کوئی بات نہیں  ایمو!  ہم سب کو درد ہوا تھا۔ لیکن تھوڑے دنوں بعد ٹھیک ہو گیا تھا۔ ‘‘ لوکاٹ کی جڑوں نے بتایا تو ایمو کو کچھ تسلی ہوئی۔
صبح جب افضل بابا کیاری کو دیکھنے آئے تو وہ ایمو کا ننھا سا پودا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پیار سے پودے کو بار بار چھوا  ۔ ایمو اندر ہی اندر  بڑی گدگدی ہوئی۔
جب ایمو کا پودا بڑا ہوا تو  زمین کے اندراس کی جڑیں بھی بڑی ہونے لگیں۔ ادھر ادھر پھیلنے لگیں۔ افضل بابا روز ایمو کو بہت پیار سے پانی دیتے اور اس کے پودے کی دیکھ بھال کرتے۔ فالتو پتے کاٹ  دیتے۔ شاخوں کو ٹھیک ٹھاک کرتے پھر کیاری میں جھاڑو لگا کر پھوار والا پانی دیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے  ایمو کا پودا  اورلمبا ہوتا گیا۔
ایک سال گزر گیا۔ اب تو ایمو کا پودا پورا ایک درخت بن گیا تھا۔ اس پر آم آنے لگے تھے۔ افضل بابا ایمو کا پھل اتارتے اور محلے میں تقسیم کر دیتے۔ جب بچے ایمو کے پاس سے گزرتے ہوئے ایمو کو پیار کرتے تو ایمو کو بہت خوشی ہوتی۔ وہ خوشی سے سارے درخت کو پانی پہنچاتی اور جڑوں کو ہدایت دیتی رہتی۔ ’’بھئی ! ٹھیک سے پانی جذب کرنا۔ اوپر والے آموں تک پہنچانا ہے۔ جلدی جلدی کام کرنا ہے۔سستی اچھی بات نہیں!‘‘
ایک دن کیاری میں نئی گٹھلی کی آمد ہوئی۔ اس  کانام جامن تھا۔ پہلے تو بہت خوش تھی۔ سب سے گھلی ملی اور خوب باتیں کی۔ لیکن جب پودا نکلا تو وہ درد سے بے حال ہو گئی۔تب ایمو نے اس کو بہت پیار کیا اور کہا۔

’’جامن بیٹی ! جب پھل نکلے گا تو تمھیں  یاد بھی نہیں ہو گاکہ کتنا درد ہوا تھا! مزے دار میٹھا پھل دینے کے لیے درد  توسہنا پڑتا ہے۔‘‘

Wednesday, 4 January 2017

دِنوں کے نام


دِنوں کے نام:
 آج جمعہ ہے۔امی نے آج پُلاؤ پکایا ہے۔  بابا جان جمعہ کی نماز پڑھ کر آئے ہیں۔ کل ہفتہ ہو گا۔ پھر اتوار۔یہ دونوں چھٹی کے دن ہوتے ہیں۔ انجو کے بھیا سوموار کو سکول جاتے ہیں۔ منگل کے دن درزی انجو کے  کپڑے سی کر  لائے گا۔ بدھ کو انجو نے اپنی امی کے ساتھ  نانو کے گھر جانا ہے۔ رات وہ وہیں رہے گی۔ پھر جمعرات کو واپس آئے گی۔
ذرا بتائیں!
1.                امی نے کس دن پُلاؤ پکایا ؟
2.                کون سے دو دن چھٹی کے ہیں؟
3.                انجو کے بھیا کب سکول جاتے ہیں؟
4.                درزی کپڑے کب لائے گا؟
5.                انجو واپس گھر کب آئےگی؟